امیر کی وفاداری
صدیوں پہلے، جب دنیا میں سلطنتیں تلوار کے زور پر بنتی اور بکھرتی تھیں، پہاڑوں کے درمیان ایک حسین وادی تھی جسے لوگ "نورستان" کہتے تھے۔ یہاں کی زمین زرخیز تھی، دریاؤں کا پانی موتی کی طرح صاف، اور آسمان ہمیشہ نیلا۔ نورستان کے لوگ محنتی، سچے اور مہمان نواز تھے۔ ان کے بادشاہ، شاہ سلیمان، ایک نڈر، رحم دل اور عادل حکمران تھا۔
شاہ سلیمان کا محل سفید سنگِ مرمر سے تعمیر کیا گیا تھا۔ چاروں طرف بلند مینار، زریں گنبد، اور خوشبودار باغات تھے جن میں رنگ برنگے پھول مہکتے رہتے تھے۔ اسی محل میں ایک نوجوان سپاہی، امیر، پروان چڑھا تھا۔ وہ یتیم تھا، بچپن میں دشمنوں کے حملے میں اس کے ماں باپ مارے گئے، اور شاہ سلیمان نے اسے محل میں پناہ دی۔
امیر نہ صرف جسمانی طور پر مضبوط تھا، بلکہ اس کی آنکھوں میں وفاداری اور سچائی کی چمک تھی۔ شاہ سلیمان اُسے اپنے بیٹے کی طرح چاہتے تھے۔ امیر نے تلوار بازی، گھوڑا سواری، تیر اندازی اور جنگی حکمت عملی محل کے استادوں سے سیکھی۔ وہ دوسرے سپاہیوں سے بہت مختلف تھا — اسے مال و دولت یا شہرت سے لگاؤ نہ تھی، بس اپنی سرزمین اور اپنے بادشاہ کے لیے جان بھی قربان کر سکتا تھا۔
ایک دن شاہی جاسوسوں نے خبر دی کہ مشرق میں واقع سلطنت "ظفرگڑھ" کے سلطان نے نورستان پر حملے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ظفرگڑھ کا سلطان، فہد ترین ایک ظالم اور خود غرض حکمران تھا جو کئی سلطنتوں کو فتح کر کے اپنی حکومت بڑھا چکا تھا۔ اب اس کی نظریں نورستان کی سرسبز زمینوں اور قیمتی معدنیات پر تھیں۔
شاہ سلیمان نے اپنے سرداروں کی مجلس بلائی۔ سب نے مشورہ دیا کہ اتحادی ریاستوں کو مدد کے لیے پیغام بھیجا جائے، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ دشمن کے جاسوس ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔ صرف ایک بہادر، چالاک اور وفادار شخص ہی یہ پیغام خفیہ طور پر پہنچا سکتا تھا۔ سب کی نظریں امیر پر جا ٹھہریں۔
امیر نے بغیر جھجک کے ذمہ داری قبول کی۔
امیر تنہا روانہ ہوا۔ اس کا پہلا پڑاؤ سلطنت "بدرالقمر" تھا، جو نورستان کی پرانی حلیف ریاست تھی۔ راستہ برفیلے پہاڑوں سے گزرتا تھا جہاں برفانی بھیڑیے اور ڈاکو چھپے ہوتے تھے۔ ایک رات امیر پر ڈاکوؤں نے حملہ کیا، مگر اس نے نہ صرف خود کو بچایا بلکہ ایک زخمی بچے کو بھی ان کے چنگل سے نکالا۔ اگلے دن وہ خون آلود کپڑوں میں جب بدرالقمر کے دربار پہنچا، تو درباری اس کی بہادری سے دنگ رہ گئے۔
اس نے خط پیش کیا، اور شاہِ بدرالقمر نے وعدہ کیا کہ نورستان کی مدد کو آئے گا۔
ایسے ہی کئی ریاستوں کا سفر کرتے ہوئے، امیر نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر سب تک پیغام پہنچایا۔ اس دوران وہ زخمی بھی ہوا، قید میں بھی ڈالا گیا، مگر ہر بار اُس کی وفاداری اور ذہانت نے اُسے بچا لیا۔
کسی طوفان کی آمد کا پیغام دے رہی تھیں۔ شاہی میناروں سے نگاہ ڈالنے والے محافظ دور افق پر ایک بڑی فوج کے قدموں کی دھمک سن سکتے تھے۔ ظفرگڑھ کے سلطان، فہد ترین، نے ہزاروں سپاہیوں کے ساتھ نورستان کی سرحد پر پڑاؤ ڈال دیا تھا۔
محل میں خاموشی چھائی ہوئی تھی، لیکن شاہ سلیمان کے چہرے پر فکر کے باوجود ایک اعتماد کی جھلک تھی ۔ کیونکہ اُسے معلوم تھا کہ امیر اپنے وعدے پر قائم ہے۔
اور پھر، طوفانی رات کے دوسرے پہر، قاصدوں نے خوشخبری دی:
امیر کامیابی سے واپس آ گیا ہے، اور اتحادی لشکر مشرقی درّے سے نورستان کی طرف بڑھ رہے ہیں!
محل میں جیسے زندگی لوٹ آئی۔ امیر محل میں داخل ہوا، اس کا چہرہ تھکن سے چور، مگر آنکھوں میں روشنی تھی۔ شاہ سلیمان نے اُسے گلے لگا کر کہا:
"بیٹا، تُو نے نورستان کا قرض ادا کر دیا۔ اب وقت ہے دشمن کو جواب دے گا،
صبحِ جنگ طلوع ہوئی۔ میدانِ نورگاہ، جہاں کبھی کسان کھیتی کرتے تھے، اب تلواروں، نیزوں، گھوڑوں اور جنگی نعروں سے گونج اٹھا۔ ایک طرف نورستان اور اس کے اتحادی — بدرالقمر، گلزار نگر، اور قلعہِ مہتاب — دوسری طرف فہد ترین کی ظالم فوج، جس کا جھنڈا کالے بادلوں سا لگ رہا تھا۔
امیر، اپنی سیاہ زرہ میں ملبوس، سفید گھوڑے پر سوار، لشکر کے اگلے دستے کی قیادت کر رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں نورستان کی قدیم تلوار "شمشیرِ وفا" تھی، جو صرف وفاداروں کو دی جاتی تھی۔
جنگ کا آغاز ہوا۔ آسمان پر تیر برسنے لگے، زمین تلواروں کی چمک سے دہکنے لگی، اور فضا میں جنگی نعرے بلند ہوئے۔
امیر دشمن کی صفوں کو چیرتا ہوا، فہد ترین کے ذاتی محافظوں تک پہنچا۔ وہاں خون کا دریا بہا، لیکن امیر نے ہار نہ مانی۔ آخرکار، وہ فہد ترین کے سامنے تھا۔
دونوں کے درمیان زبردست تلوار بازی ہوئی۔ فہد ترین تیز تھا، مگر امیر میں ایمان کی طاقت تھی۔ آخر ایک وار میں امیر نے دشمن کا خنجر ہاتھ سے گرا دیا اور اُسے زیر کر لیا۔
جنگ ختم ہوئی — نورستان فتح یاب ہوا،
فتح کے بعد پورے نورستان میں جشن منایا گیا۔ شاہ سلیمان نے عوام کے سامنے اعلان کیا:
"امیر صرف میرا سپاہی نہیں، میری روح کا وارث ہے۔ میں اُسے اپنی بیٹی، شہزادی لیلیٰ، کا ہاتھ دیتا ہوں۔
شہزادی لیلیٰ، جو شروع سے ہی امیر کی قربانیوں سے متاثر تھی، خوشی سے پھول نہ سمارہی تھی۔ دونوں کی شادی دھوم دھام سے ہوئی، اور نورستان میں ایک نئی صبح کا آغاز ہوا۔
امیر بادشاہ کا خاص مشیر بنا، اور اس کی وفاداری کی کہانیاں نسل در نسل سنائی گئیں۔
شاہ سلیمان کا محل سفید سنگِ مرمر سے تعمیر کیا گیا تھا۔ چاروں طرف بلند مینار، زریں گنبد، اور خوشبودار باغات تھے جن میں رنگ برنگے پھول مہکتے رہتے تھے۔ اسی محل میں ایک نوجوان سپاہی، امیر، پروان چڑھا تھا۔ وہ یتیم تھا، بچپن میں دشمنوں کے حملے میں اس کے ماں باپ مارے گئے، اور شاہ سلیمان نے اسے محل میں پناہ دی۔
امیر نہ صرف جسمانی طور پر مضبوط تھا، بلکہ اس کی آنکھوں میں وفاداری اور سچائی کی چمک تھی۔ شاہ سلیمان اُسے اپنے بیٹے کی طرح چاہتے تھے۔ امیر نے تلوار بازی، گھوڑا سواری، تیر اندازی اور جنگی حکمت عملی محل کے استادوں سے سیکھی۔ وہ دوسرے سپاہیوں سے بہت مختلف تھا — اسے مال و دولت یا شہرت سے لگاؤ نہ تھی، بس اپنی سرزمین اور اپنے بادشاہ کے لیے جان بھی قربان کر سکتا تھا۔
ایک دن شاہی جاسوسوں نے خبر دی کہ مشرق میں واقع سلطنت "ظفرگڑھ" کے سلطان نے نورستان پر حملے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ظفرگڑھ کا سلطان، فہد ترین ایک ظالم اور خود غرض حکمران تھا جو کئی سلطنتوں کو فتح کر کے اپنی حکومت بڑھا چکا تھا۔ اب اس کی نظریں نورستان کی سرسبز زمینوں اور قیمتی معدنیات پر تھیں۔
شاہ سلیمان نے اپنے سرداروں کی مجلس بلائی۔ سب نے مشورہ دیا کہ اتحادی ریاستوں کو مدد کے لیے پیغام بھیجا جائے، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ دشمن کے جاسوس ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔ صرف ایک بہادر، چالاک اور وفادار شخص ہی یہ پیغام خفیہ طور پر پہنچا سکتا تھا۔ سب کی نظریں امیر پر جا ٹھہریں۔
امیر نے بغیر جھجک کے ذمہ داری قبول کی۔
امیر تنہا روانہ ہوا۔ اس کا پہلا پڑاؤ سلطنت "بدرالقمر" تھا، جو نورستان کی پرانی حلیف ریاست تھی۔ راستہ برفیلے پہاڑوں سے گزرتا تھا جہاں برفانی بھیڑیے اور ڈاکو چھپے ہوتے تھے۔ ایک رات امیر پر ڈاکوؤں نے حملہ کیا، مگر اس نے نہ صرف خود کو بچایا بلکہ ایک زخمی بچے کو بھی ان کے چنگل سے نکالا۔ اگلے دن وہ خون آلود کپڑوں میں جب بدرالقمر کے دربار پہنچا، تو درباری اس کی بہادری سے دنگ رہ گئے۔
اس نے خط پیش کیا، اور شاہِ بدرالقمر نے وعدہ کیا کہ نورستان کی مدد کو آئے گا۔
ایسے ہی کئی ریاستوں کا سفر کرتے ہوئے، امیر نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر سب تک پیغام پہنچایا۔ اس دوران وہ زخمی بھی ہوا، قید میں بھی ڈالا گیا، مگر ہر بار اُس کی وفاداری اور ذہانت نے اُسے بچا لیا۔
کسی طوفان کی آمد کا پیغام دے رہی تھیں۔ شاہی میناروں سے نگاہ ڈالنے والے محافظ دور افق پر ایک بڑی فوج کے قدموں کی دھمک سن سکتے تھے۔ ظفرگڑھ کے سلطان، فہد ترین، نے ہزاروں سپاہیوں کے ساتھ نورستان کی سرحد پر پڑاؤ ڈال دیا تھا۔
محل میں خاموشی چھائی ہوئی تھی، لیکن شاہ سلیمان کے چہرے پر فکر کے باوجود ایک اعتماد کی جھلک تھی ۔ کیونکہ اُسے معلوم تھا کہ امیر اپنے وعدے پر قائم ہے۔
اور پھر، طوفانی رات کے دوسرے پہر، قاصدوں نے خوشخبری دی:
امیر کامیابی سے واپس آ گیا ہے، اور اتحادی لشکر مشرقی درّے سے نورستان کی طرف بڑھ رہے ہیں!
محل میں جیسے زندگی لوٹ آئی۔ امیر محل میں داخل ہوا، اس کا چہرہ تھکن سے چور، مگر آنکھوں میں روشنی تھی۔ شاہ سلیمان نے اُسے گلے لگا کر کہا:
"بیٹا، تُو نے نورستان کا قرض ادا کر دیا۔ اب وقت ہے دشمن کو جواب دے گا،
صبحِ جنگ طلوع ہوئی۔ میدانِ نورگاہ، جہاں کبھی کسان کھیتی کرتے تھے، اب تلواروں، نیزوں، گھوڑوں اور جنگی نعروں سے گونج اٹھا۔ ایک طرف نورستان اور اس کے اتحادی — بدرالقمر، گلزار نگر، اور قلعہِ مہتاب — دوسری طرف فہد ترین کی ظالم فوج، جس کا جھنڈا کالے بادلوں سا لگ رہا تھا۔
امیر، اپنی سیاہ زرہ میں ملبوس، سفید گھوڑے پر سوار، لشکر کے اگلے دستے کی قیادت کر رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں نورستان کی قدیم تلوار "شمشیرِ وفا" تھی، جو صرف وفاداروں کو دی جاتی تھی۔
جنگ کا آغاز ہوا۔ آسمان پر تیر برسنے لگے، زمین تلواروں کی چمک سے دہکنے لگی، اور فضا میں جنگی نعرے بلند ہوئے۔
امیر دشمن کی صفوں کو چیرتا ہوا، فہد ترین کے ذاتی محافظوں تک پہنچا۔ وہاں خون کا دریا بہا، لیکن امیر نے ہار نہ مانی۔ آخرکار، وہ فہد ترین کے سامنے تھا۔
دونوں کے درمیان زبردست تلوار بازی ہوئی۔ فہد ترین تیز تھا، مگر امیر میں ایمان کی طاقت تھی۔ آخر ایک وار میں امیر نے دشمن کا خنجر ہاتھ سے گرا دیا اور اُسے زیر کر لیا۔
جنگ ختم ہوئی — نورستان فتح یاب ہوا،
فتح کے بعد پورے نورستان میں جشن منایا گیا۔ شاہ سلیمان نے عوام کے سامنے اعلان کیا:
"امیر صرف میرا سپاہی نہیں، میری روح کا وارث ہے۔ میں اُسے اپنی بیٹی، شہزادی لیلیٰ، کا ہاتھ دیتا ہوں۔
شہزادی لیلیٰ، جو شروع سے ہی امیر کی قربانیوں سے متاثر تھی، خوشی سے پھول نہ سمارہی تھی۔ دونوں کی شادی دھوم دھام سے ہوئی، اور نورستان میں ایک نئی صبح کا آغاز ہوا۔
امیر بادشاہ کا خاص مشیر بنا، اور اس کی وفاداری کی کہانیاں نسل در نسل سنائی گئیں۔
Comments
Post a Comment