غلامِ محبت

 




غلامِ محبت
(ایک پرانی کہانی)

کہتے ہیں، ایک سلطنت تھی—"نورستان"۔ اس سلطنت کا بادشاہ سلیمان نہ صرف جنگی حکمتِ عملی میں بے مثال تھا، بلکہ انصاف و رحم دلی میں بھی مشہور تھا۔ اُس کی ملکہ، زریں، حسن و عقل کا شاہکار تھی، جو اپنی دانائی سے دربار اور دل دونوں پر راج کرتی تھی۔

یہ دو دل صرف تخت و تاج کے ساتھی نہ تھے، بلکہ روحانی طور پر ایک دوسرے کے غلام تھے—ایسے غلام جو محبت کی زنجیروں میں بندھے، آزاد روحیں تھے۔

ایک بار دشمن سلطنت پر حملہ آور ہوا۔ بادشاہ نے تیغ و تلوار تھامی، لیکن جانے سے پہلے ملکہ سے وعدہ کیا:
"اگر زندگی رہی، تو تیرے قدموں میں لوٹ آؤں گا، اور اگر شہید ہوا، تو تیری محبت میری قبر کا چراغ ہوگی۔"

ملکہ نے اسے ایک سونے کی انگوٹھی دی، جس پر لکھا تھا: "غلامِ محبت"۔

مہینوں بیت گئے۔ قاصد کوئی خبر نہ لایا۔ ہر شام ملکہ قلعے کی فصیل پر جا کر مغرب کے سورج کو تکتا، جیسے اُس کی کرنوں میں سلیمان کی صورت چھپی ہو۔ رعایا بھی خاموش ہو گئی، لیکن ملکہ کا یقین نہ ٹوٹا۔

ایک دن، قلعے کے دروازے پر ایک زخمی سوار نمودار ہوا۔ اُس کے چہرے پر خاک تھی، لباس پھٹا ہوا، لیکن آنکھوں میں وہی شناسا چمک تھی۔
ملکہ دوڑی، اور اسے پہچانتے ہی آنسوؤں میں مسکرا کر بولی:
"تو لوٹ آیا، اے میرے دل کے بادشاہ۔"

بادشاہ نے تھکن زدہ ہاتھ سے انگوٹھی پیش کی اور کہا:
"یہ محبت کا قافلہ ہے جو مجھے موت سے بھی کھینچ لایا۔ میں تیرے عشق کا غلام ہوں، زریں—غلامِ محبت۔"


کہتے ہیں اس دن کے بعد، نورستان میں محبت کو قانون، وفا کو عبادت اور دل کو سلطنت مانا گیا۔

Ager apny is kahani ki video dakni hn tu neche play ky option pay click Kar ke daklain shukria 

                  




Comments

Popular Posts