امیر لڑکی کا واقعہ
شہرِ لاہور کی پوش آبادی میں ایک عالی شان حویلی تھی، جس کے بائیں طرف سونے کی طرح چمکتی ہوئی گاڑیاں قطار میں کھڑی تھیں۔ اس حویلی میں رل ایک لڑکی، "رابیہ خان"۔ وہ ایک معروف تاجر کی بیٹی تھی، جس کا شمار شہر کے امیر ترین
لوگوں میں ہوتا تھا۔
رابیہ بچپن سے ہی دولت کے حصار میں پلی بڑھی تھی۔ مہنگے اسکول، بیرونِ ملک چھٹیاں، ہر جشن پر نئے ملبوسات اور زیورات۔ اس کے کمرے کی دیواروں پر اصلی پینٹنگز آویزاں تھیں اور کتابوں کی جگہ مہنگے برانڈز کے بیگ اور جوتے سجے ہوئے تھے۔ لیکن اس چمک دمک نے اس کے دل میں غرور بھر دیا تھا۔ وہ سادہ لباس پہننے والوں کو حقارت سے دیکھتی، اور اپنے خادموں کو نام سے نہیں، اشاروں سے بلاتی۔ایک دن اس کے
اسکول کی پرنسپل نے اعلان کیا:
"ہم سب بچے قریبی گاؤں کے یتیم خانے جائیں گے تاکہ اُن بچوں کے ساتھ ایک دن گزاریں جو زندگی کی نعمتوں سے محروم ہیں۔رابیہ کے چہرے پر ناگواری کے آثار تھے۔ اس نے منہ بنایا، لیکن اس کی ماں نے سختی سے کہا:
"تمہیں انسانیت سیکھنی ہے، اور یہ تمہیں وہاں جا کر ہی سیکھنی پڑے گی۔"بالآخر، وہ اسکول کے بچوں کے ساتھ بس میں سوار ہو گئی۔ راستے میں وہ خاموش رہی، چہرے پر بیزاری
طاری تھی۔
یتیم خانے کا منظر رابیہ کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ وہ بچے جو پھٹے کپڑوں میں ملبوس تھے، دھول مٹی میں کھیل رہے تھے لیکن ان کے چہروں پر ایک عجیب سی چمک تھی۔ ان کے قہقہے دل کو چھو جاتے تھے۔ رابیہ نے غیرارادی طور پر ایک چھوٹی بچی کی طرف دیکھا، جس کے ہاتھ میں مٹی سے بنی ہوئی گڑیا تھی۔وہ بچی دوڑتی ہوئی رابیہ کے پاس آئی، مسکرائی، اور بولی:"آپ کو یہ گڑیا پسند آئی؟ یہ میری سب سے پیاری گڑیا ہے، آپ کے لیے۔رابیہ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ وہ ایک پل کے لیے خاموش کھڑی رہی، پھر بچی کو گلے لگا لیا۔
اس دن کے بعد رابیہ ہر ہفتے یتیم خانے جانے لگی۔ اس نے اپنے الماری کے کپڑے اور کھلونے وہاں کے بچوں کو دینے شروع کیے۔ اُس نے سیکھا کہ اصل خوشی دوسروں کی خوشی میں ہے، اور دولت صرف تب خوبصورت لگتی ہے جب وہ بانٹی جائے۔
رفتہ رفتہ اس کا رویہ بدلنے لگا۔ وہ اسکول میں عام بچوں سے بات کرنے لگی، اپنے نوکروں سے محبت سے پیش آنے لگی۔ اس کی ماں حیران تھی کہ یہ کیسے ممکن ہوا، لیکن اندر ہی اندر وہ خوش بھی تھی۔
ایک دن اسکول کے سالانہ فنکشن میں رابیہ کو "سوشل ہیرو" کے اعزاز سے نوازا گیا۔ اس نے اسٹیج پر آ کر کہا:
"میں نے دولت میں سب کچھ پایا، لیکن دل کی سکون اُس دن ملا جب ایک چھوٹی سی بچی نے اپنی سب سے پیاری گڑیا مجھے تحفے میں دی۔ اصل خوشی صرف اپنے لیے جینے میں نہیں، دوسروں کے لیے جینے میں ہے۔"
تالیاں بجتی رہیں، اور رابیہ کی آنکھوں میں نمی تھی — لیکن اس بار وہ نمی کمزوری کی نہیں، ایک نئی روشنی کی علامت
تھی۔
Nice 👍
ReplyDelete