بلبل کی فریاد
ایک دفہ کا ذکر ہے کسی گاؤں کے کنارے ایک پرانا باغ تھا۔ اس باغ میں ہر قسم کے درخت اور پھول کھلے ہوئے تھے۔ آم، جامن، چنبیلی، موتیا اور گلاب کی خوشبو فضا میں رچی بسی تھی۔ یہاں ہر وقت پرندوں کا شور رہتا، لیکن ایک آواز ایسی تھی جو
سب سے نمایاں تھی—ایک نازک سی بلبل کی آواز۔
یہ بلبل اس باغ کی رُوح تھی۔ ہر صبح جب سورج کی پہلی کرن باغ کے پتوں پر پڑتی، تو بلبل اپنے گھونسلے سے نکل کر ایک اونچی شاخ پر بیٹھ جاتی اور سریلا گیت گاتیں اس کی آواز میں ایسی مٹھاس تھی کہ سننے والا لمحوں کے لیے دنیا کو بھول جاتا۔ کسانوں کے دن کا آغاز اسی آواز سے ہوتا اور بچے اسی گیت پر کھیلنے نکلتے۔
اس بلبل کا نام سب نے "نور" رکھ دیا تھا، کیونکہ وہ باغ کو
روشنی، امید اور خوشی دیتی تھی۔
مگر ایک دن، قسمت نے ایک نیا موڑ لیا۔
شہر سے ایک شکاری اس علاقے میں آیا۔ وہ پرندے قید کر کے بیچنے کا کام کرتا تھا۔ جب اُس نے نور کی آواز سنی، تو حیران رہ گیا۔ "ایسی آواز میں نے زندگی میں کبھی نہیں سنی، اگر یہ میرے پاس رہے اور ہر دن گائے، تو میرے دن بدل جائیں گے!"
اس نے سوچا۔اگلی صبح وہ ایک چالاک جال لے کر باغ میں آیا۔ اس نے نرم نرم دانے بکھیرے اور جال کے اندر چھپکے سے بیٹھ گیا۔ نور جب دانے چگنے کے لیے اتری، تو اچانک جال بند ہو گیا;
لیکن نور خاموش تھی۔نہ وہ کھاتی، نہ پیتی، نہ گاتی۔ وہ بس کھڑکی سے باہر آسمان کو دیکھتی اور آنکھوں میں آنسو بھر کر سوچتی:"وہ باغ، وہ شاخ، وہ صبح، وہ آزادی کہاں گئی؟"
دن گزرتے گئے، شکاری کی پریشانی بڑھتی گئی۔ اس نے ہر طریقہ آزمایا، مگر نور نے ایک لفظ بھی نہ گایا۔ وہ پنجرے میں رہتے رہتے پژمردہ ہو گئی، اس کے پروں کا رنگ بھی پھیکا پڑ گیا۔
ایک دن شکاری کی ننھی بیٹی آئی۔ اس نے بلبل کی حالت دیکھی، تو باپ سے کہا:"بابا، یہ بلبل تو غمگین ہے۔ اسے آزاد کر دو۔ خوشی کسی کو قید میں نہیں ملتی۔"
شکاری کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اسے احساس ہوا کہ وہ کسی معصوم کو زبردستی خوش نہیں کر سکتا۔
اس نے پنجرہ کھولا۔نور چند لمحے ہچکچائی، پھر تیزی سے اڑی، اور سیدھی اس باغ میں جا پہنچی جہاں اس کی دنیا تھی۔اگلے دن، سورج نکلا… اور ایک میٹھی، زندگی سے بھری آواز فضا
میں گونجنے لگی۔پورا گاؤں جان گیا: نور واپس آ گئی ہے۔
Comments
Post a Comment