بابا جی کی روشنی
ایک دفہ کا ذکر ہے، پنجاب کے ایک سرسبز و شاداب گاؤں "نورپور" میں ایک بزرگ رہتے تھے، جنہیں سب محبت سے "بابا جی" کہتے تھے۔ ان کا اصل نام "غلام رسول" تھا، مگر پورے گاؤں میں بچے، بوڑھے، جوان سب انہیں بابا جی کہہ کر پکارتے۔ وہ نہایت دل باوقار، سادہ لباس پہننے والے، سفید داڑھی اور روشن آنکھوں والے شخص تھے۔ ان کے چہرے پر ہر وقت ایک نور سا چمکتا تھا، جیسے اندر سے دل میں کوئی خاص روشنی ہو
بابا جی کی عمر ستر سال سے زیادہ ہو چکی تھی، مگر ان کی شخصیت میں ایسی چمک اور جاذبیت تھی کہ جو بھی ان سے ایک بار ملتا، دوبارہ ملنے کو بے تاب ہو جاتا۔ وہ مسجد کے حجرے میں رہتے تھے، اور اکثر گاؤں کے بچوں کو دین کی باتیں، اخلاق کی نصیحتیں، اور پرانی کہانیاں سنایا کرتے تھے ان کی باتوں میں ایک عجیب کشش تھی، جیسے صدیوں کی دانائی اُن کے الفاظ میں اتر آئی ہو۔
بابا جی کا ایک معمول سب کو حیران کرتا تھا۔ ہر جمعرات کو، عصر کی نماز کے بعد، وہ ایک چھوٹا سا کپڑوں کا تھیلا اُٹھاتے، مسجد سے نکلتے اور گاؤں کے مغربی کنارے پر واقع ایک پرانے پیپل کے درخت کے نیچے جا بیٹھتے۔ وہ وہاں تنہا کچھ وقت گزارتے، دعائیں کرتے، اور پھر سورج غروب ہونے سے پہلے واپس مسجد آ جاتے۔ کسی کو علم نہ تھا کہ وہ درخت ان کے لیے اتنی اہمیت کیوں رکھتا ہے۔ لوگ اندازے لگاتے، کوئی کہتا شاید کوئی بزرگ ولی اللہ کا مزار ہے، کوئی کہتا وہاں ان کا کوئی خواب
وابستہ ہے، مگر سچ کسی کو معلوم نہ تھا۔
ایک دن کا واقعہ ہے۔ گاؤں کا ایک نوجوان "عمران"، جو شہر سے پڑھائی مکمل کر کے واپس آیا تھا، بابا جی سے بہت متاثر ہوا۔ اُس نے بچپن میں بھی ان سے کہانیاں سنی تھیں، مگر اب وہ بابا جی کی خاموشی اور تنہائی کو سمجھنا چاہتا تھا۔ اس جمعرات کو وہ چپکے چپکے بابا جی کے پیچھے پیچھے گیا، اور کچھ فاصلے سے درخت کے نیچے بیٹھے اُنہیں دیکھتا رہا۔
بابا جی نے درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنا تھیلا کھولا، اس میں سے ایک پرانا دوپٹہ نکالا، جو شاید کسی عورت کا تھا۔ انہوں نے اسے اپنے گھٹنوں پر رکھا، آسمان کی طرف دیکھ کر آنکھیں بند کیں، اور ایک ہلکی سی سرگوشی کی،
"ماں جی، آج پھر آپ کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔۔۔"
عمران کی آنکھوں سے بےاختیار آنسو بہہ نکلے۔ وہ خاموشی سے واپس لوٹ گیا، اور اگلے دن بابا جی کے قدموں میں بیٹھ کر پوچھنے لگا،
"بابا جی، اگر برا نہ مانیں، تو ایک بات پوچھوں؟"
بابا جی نے مسکرا کر کہا، "پوچھ بیٹا، دل صاف ہو تو سوال بوجھ نہیں بنتے۔"
عمران نے آہستہ آواز میں کہا،
"آپ ہر جمعرات اس درخت کے نیچے کیوں جاتے ہیں؟"
بابا جی کا چہرہ لمحہ بھر کے لیے اداس ہو گیا، مگر پھر وہ آسمان کی طرف دیکھ کر گویا ہوئے،
"یہ پیپل کا درخت میرے بچپن کا ساتھی ہے، ۔ میری ماں، حاجن بی بی، مجھے یہاں لا کر اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی تھیں۔ گرمیوں کی دوپہریں ہوں یا سردیوں کی دھوپ، وہ اس درخت کے نیچے بیٹھ کر مجھے دعائیں دیتی تھیں۔ ماں کی وہ نرم آواز، وہ ہاتھوں کا لمس، آج بھی میرے دل میں زندہ ہے۔"
پھر وہ تھوڑا رکے اور بولے،
"جب وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں، تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں ان کی دعاؤں کا سلسلہ بند نہیں ہونے دوں گا۔ ہر جمعرات آ کر ان کی روح کے لیے دعا کرتا ہوں، وہی دوپٹہ ساتھ لاتا ہوں جو انہوں نے آخری بار مجھے دیا تھا۔ شاید ان کی روح یہ سب محسوس کرتی ہو۔"
عمران کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ وہ خاموش ہو گیا، جیسے الفاظ بھی اب چھوٹے پڑ گئے ہوں۔ بابا جی نے آہستہ سے اُس کے سر پر ہاتھ رکھا،
"بیٹا، ماں کی محبت اس زمین کی سب سے پاک ترین چیز ہے۔ دنیا کے علم، دولت، طاقت — سب کچھ اکٹھا کر لو، مگر ماں کی دعا جیسی روشنی کہیں نہیں ملے گی۔"
وقت گزرتا گیا، بابا جی کا نورانی چہرہ اور بھی نکھرتا گیا۔ پھر ایک دن ایسا آیا جب بابا جی بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ گاؤں میں غم کا سماں تھا۔ لیکن سب سے خوبصورت منظر وہ تھا جب لوگوں نے دیکھا کہ بابا جی کی قبر، اُسی پیپل کے درخت کے نیچے بنائی گئی جہاں وہ ہر جمعرات اپنی ماں کی روح کو سلام پیش کرتے تھے۔
اور آج بھی، جب ہوائیں اُس درخت کی شاخوں کو چھوتی ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ماں کی دعا، بیٹے کے سر پر اب بھی سایہ کیے ہوئے ہے۔
is kahani ki video dakni hn tu neche play ky option pay click Karain 👇
Nice
ReplyDelete