سکول کا عشق

 

میں، زید، اس وقت بارویں جماعت میں تھا۔ زندگی کی رفتار عام تھی۔ صبح سات بجے اسکول، دوپہر کو گھر، پھر گلی میں دوستوں کے ساتھ کرکٹ، اور شام کو اُستاد صاحب کے ہاں ٹیوشن۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا، جب ایک دن وہ آئی۔

سفید یونیفارم، نیلے دوپٹے کے ساتھ۔ دو چوٹیاں، کتابوں سے لدا بیگ، اور آنکھوں میں کچھ چھپا ہوا سکون۔ وہ کلاس میں داخل ہوئی تو سب نے پلٹ کر دیکھا۔ میرے لیے وہ لمحہ بس ایک اچانک سا دھڑکن کا تھم جانا تھا۔ جیسے دل نے ایک لمحے کو سانس روک لی ہو۔
وہ سامنے کی قطار میں بیٹھی۔ میں ہمیشہ پچھلی سیٹ پر ہوتا تھا — شرارتی، مگر ذہین۔ میری آنکھیں اب ہر وقت اُسی کو ڈھونڈتی رہیں۔ اور عجیب بات یہ کہ جب بھی وہ بولتی، مجھے کچھ سنائی نہیں دیتا تھا، بس اُس کی آواز کے بہاؤ میں کچھ ڈوب سا جاتا تھا۔
آمنہ کم بولتی تھی۔ وہ اکثر کتابوں میں گم رہتی، کبھی کسی گروپ میں شامل نہ ہوتی۔ میں چاہتا تھا کہ اُس سے بات کروں، کچھ کہوں، لیکن الفاظ جیسے زبان سے نکلنے سے ڈرتے ہو۔ 
میں کبھی اُس کی تختی اُٹھا کر لاتا، کبھی اُس کا گرنے والا پین پکڑا دیتا۔ وہ ہر بار "شکریہ" کہتی، اور میں وہ شکریہ سارا دن دل میں گنگناتا۔
پھر ایک دن اچانک، لائبریری میں، ہم دونوں ایک ہی کتاب تک پہنچ گئے — "دیوار کے اُس پار". ہم دونوں کے ہاتھ ایک ساتھ کتاب پر پہنچے۔ وہ مسکرائی، میں گھبرا گیا، لیکن اُس نے کہا، "آپ لے لیں۔"
میں نے کہا، "نہیں، آپ پڑھ لیں، مجھے تو صرف نام پسند آیا تھا۔"
بس وہ لمحہ، میرے لیے مکمل ہو گیا۔
امتحانات قریب آئے، اور میں نے سوچا، اب نہیں تو کبھی نہیں۔ میں نے ایک کاغذ پر ایک مختصر سا نوٹ لکھا:
"آپ کی خاموشی بہت کچھ کہتی ہے، کیا کبھی ہم دوست بن سکتے ہیں؟ 
میں نے کئی دن وہ نوٹ بیگ میں رکھا، موقع تلاش کرتا رہا، لیکن کبھی ہمت نہ ہوئی۔
پھر ایک دن اسکول آیا، تو پتا چلا آمنہ اسکول نہیں آئی۔ اگلے دن بھی نہیں۔ تیسرے دن پتا چلا کہ اُس کا والد ٹرانسفر ہو گیا ہے، اور وہ خاندان لاہور منتقل ہو چکا ہے۔
میرے دل میں جیسے ایک زلزلہ آیا۔ میرا وہ نوٹ — ابھی تک بیگ میں بند تھا۔ اور آمنہ... کہیں بہت دور جا چکی تھی۔
اب دس سال گزر چکے ہیں۔ میں لاہور کی ایک یونیورسٹی میں اردو ادب پڑھا رہا ہوں۔ وہ بچپنا، وہ سکول، سب کچھ جیسے خواب ہو گیا ہو۔ مگر آمنہ کی یادیں وقت کی پرتوں میں آج بھی زندہ ہیں۔
ایک دن یونیورسٹی کے کیفے میں بیٹھا تھا جب ایک لڑکی میرے پاس آئی — اُس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی بچی تھی۔
وہ میرے پاس آئی اور کہا آپ پروفیسر زید ہیں؟
میں نے کہا جی ہاں آپ کون"
اس نی کہا میں آمنہ احمد۔"
دل رک سا گیا۔ وہی مسکراہٹ، وہی آنکھیں۔ بس اب ان میں وقت کا رنگ اور تھکن تھی۔
ہم بیٹھے۔ باتیں ہوئیں۔ اُس نے بتایا وہ شادی کے بعد واپس لاہور آ گئی تھی۔ اُس کی بیٹی اب پہلی جماعت میں تھی۔ میں نے صرف اتنا کہا،
"کیا تم جانتی ہو، تمھارے جانے کے بعد میرے بیگ میں ایک نوٹ برسوں تک رکھا ہے-
وہ مسکرائی۔
"اور کیا تم جانتے ہو؟ مجھے پتا تھا۔ لیکن میں انتظار کرتی رہی کہ تم کہو۔"
میں ہنس دیا، پھر آنکھیں بھر آئیں۔
 کچھ عشق ہمیشہ ادھورے ہوتے ہیں
ہماری ملاقات صرف ایک بار ہوئی۔ اس کے بعد کبھی نہیں۔ لیکن وہ لمحہ، جب برسوں بعد ہم ملے، وہی میری کہانی کا اختتام بن گیا۔ کچھ عشق مکمل نہیں ہوتے، لیکن ان کی یادیں عمر بھر کی سانس بن جاتی ہیں۔

    Is kahani ki video dakni hn tu neche play ky option pay click Karain 👇
                             

Comments

Popular Posts