احمد کی ایمانداری


ایک سرسبز  شاداب و خوش وادی میں ایک گاؤں بسا ہوا تھا جس کا نام "نورپور" تھا۔ یہ گاؤں چھوٹا ضرور تھا، مگر یہاں کے لوگ نہایت نیک، سادہ دل اور محنتی تھے۔ انہی لوگوں میں ایک غریب کسان کا بیٹا احمد بھی تھا۔ احمد کی عمر تقریباً تیرہ سال تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک خاص چمک اور چہرے پر معصومیت  تھی۔
احمد کے والد ایک کسان تھے اور ماں سلائی کا کام کرتی تھیں۔ ان کے پاس دولت تو نہ تھی، مگر عزت اور خلوص میں کوئی کمی نہ تھی۔ احمد بچپن سے ہی سچ بولنے والا اور ایماندار لڑکا تھا۔ گاؤں کے لوگ اس پر اعتماد کرتے تھے، حتیٰ کہ بعض دکاندار تو بغیر حساب کتاب کیے اسے سودا دے دیتے، کیونکہ انہیں یقین تھا کہ احمد کبھی دھوکہ نہیں دے گا۔
احمد کو پڑھائی سے بہت لگاؤ تھا۔ صبح فجر سے پہلے وہ اٹھ جاتا، والد کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتا، پھر ندی سے پانی بھر کر ماں کو دیتا اور دن چڑھنے سے پہلے اسکول چلا جاتا۔ وہ اکثر پرانے کپڑے، پرانا بستہ اور گھسے ہوئے جوتے پہنے ہوتا، مگر علم حاصل کرنے کا جذبہ اس کی آنکھوں میں جگمگاتا تھا۔
اسکول کے استاد بھی احمد کی سچائی اور محنت سے بہت متاثر تھے۔ وہ ہر جماعت میں اول آتا، اور استاد اسے اکثر دوسروں کے لیے مثال کے طور پر پیش کرتے۔
ایک دن احمد اسکول سے واپس آ رہا تھا کہ اسے راستے میں ایک قیمتی بٹوہ پڑا ملا۔ اس نے ادھر اُدھر دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا۔ بٹوے کو کھولا تو اس میں ہزاروں روپے، کچھ کاغذات اور ایک شناختی کارڈ تھا۔
یہ احمد کے لیے ایک امتحان تھا۔ وہ یہ رقم لے کر اپنے ماں باپ کی مدد کر سکتا تھا، کھانے پینے کی چیزیں خرید سکتا تھا، اپنے پھٹے پرانے کپڑوں کی جگہ نئے لے سکتا تھا۔ مگر اس نے ایک لمحے کو بھی سوچا نہیں، سیدھا تھانے گیا۔ تھانے کے عملے نے اس کی ایمانداری دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا۔ شناختی کارڈ کی مدد سے مالک کو اطلاع دی گئی۔
دوسرے دن ایک شخص سفید گاڑی میں تھانے آیا۔ وہ ایک شہر کا امیر تاجر تھا جو کاروبار کے سلسلے میں گاؤں آیا تھا اور غلطی سے اپنا بٹوہ گرا بیٹھا تھا۔ اس نے احمد کو دیکھا، اس کے ہاتھ چومے اور شکریہ ادا کیا۔
"بیٹا، تم نے چاہو تو میں تمہیں دس ہزار روپے دے سکتا ہوں، یا تمہیں اپنے شہر کے بہترین اسکول میں داخل کروا سکتا ہوں،" تاجر نے کہا۔۔   
احمد نے پیسوں سے انکار کیا مگر پڑھائی کا موقع ملنے پر خاموش ہو گیا۔ اس کی آنکھوں میں خواب جھلکنے لگے۔
تاجر نے وعدہ کیا کہ وہ احمد کی مکمل تعلیم کا خرچ اٹھائے گا۔ احمد کے والدین کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ گاؤں کے لوگ اس کے کردار سے اور بھی متاثر ہو گئے۔
چند مہینوں بعد احمد شہر چلا گیا، جہاں ایک بڑے اسکول میں اس کا داخلہ ہوا۔ اس نے وہاں بھی محنت جاری رکھی، اور ہر امتحان میں نمایاں کارکردگی دکھائی۔ کچھ سال بعد وہ ایک کامیاب انجینئر بن گیا اور اپنے گاؤں واپس آ کر ایک اسکول کھولا جہاں وہ غریب بچوں کو مفت تعلیم دینے لگا۔
احمد کی ایمانداری نے نہ صرف اس کی زندگی بدلی بلکہ گاؤں کے سینکڑوں بچوں کی قسمت بھی سنوار دی۔ وہ آج بھی نورپور کے لیے فخر کی علامت ہے۔


Is kahani ki video dakni hn tu neche play ky option pay click Karain 👇




Comments

Popular Posts